یورینیم کا تفصیلی تعارف
جس طرح لوہا,کاپر,ایلومینیم,کاپر اور ٹنگسٹن وغیرہ جیسی دھاتوں کو زمین سے نکالا جاتا ہے,اسی طرح یورینیم بھی ایک دھات ہے جسکو زمین سے نکالا جاتا ہے۔لیکن یہ دوسری دھاتوں کے برعکس ایک بہت خطرناک دھات ہے۔یہ اتنی زیادہ بھیانک اور تباہ کن ہے کہ اس کے ایک کلوگرام سے اتنی زیادہ انرجی پیدا کی جاسکتی ہے جس سے ایک بہت بڑے شہر کو چند لمحوں میں تباہ کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسکو جوہری ہتھیار یعنی ایٹم بم میں فیول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو نہ صرف ایٹم بم بلکہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں استعمال کر کے اس سے پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔یورینیم میں وہ کونسی ایسی خوبی ہے جسکی وجہ سے اسکو ایٹم بم میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے چھوٹے سے ذرے سے بے انتہا انرجی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ یورینیم کی خصوصیات,اسکی تاریخ,یورینیم کی انرچمنٹ سے کیا مراد ہے اور یورینیم سب سے زیادہ کہاں پاٸ جاتی ہے؟آج ہم ان تمام سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے۔۔۔
یورینیم ایک چاندی کی طرح چمکدار دھات ہے جو بھاری اور بجلی کا ناقص کنڈکٹر(poor conductor) ہے۔اس کا میلٹنگ پواٸنٹ 1132 سیلسیس ہے جبکہ بواٸلنگ پواٸنٹ 4131 سیلسیس ہے۔اسکا اٹامک نمبر 92 جبکہ اٹامک ماس 238 ہے۔
یورینیم کی دریافت ایک جرمن کیمیا دان مارٹن کلاپروتھ (1743-1817) نے کی۔1789 میں، کلاپروتھ ایک عام اور معروف کچ دھات کا مطالعہ کر رہا تھا جسے pitchblende کہتے ہیں۔ اس وقت، سائنس دانوں کا خیال تھا کہ پچ بلینڈ لوہے اور زنک پر مشتمل ایک منرل(ore) ہے۔تاہم اپنی تحقیق کے دوران، Klaproth نے پایا کہ اس منرل کے ایک حصہ میں لوہے یا زنک جیسی خصوصیات نہیں پاٸ جاتیں۔اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضرور اس میں ایک نیا ایلیمنٹ ہے اور اس نے اس ایلیمنٹ کا نام یورینیم تجویز کیا ہے۔ یہ نام یورینس کے اعزاز میں دیا گیا تھا، ایک ایسا سیارہ جو صرف چند سال پہلے 1781 میں دریافت ہوا تھا۔تاہم نصف صدی کے بعد یعنی 1841 میں ایک فرانسیس ساٸنسدان نے پہلی مرتبہ خالص یورینیم تیار کی۔
یوینیم قدرتی طور پر پاٸ جانے والی واحد ایسی دھات ہے جس کو ایٹم بم میں بطور استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن ایٹم بم میں استعمال کرنے سے پہلے اسے ایک پراسس سے گزرنا پڑتا ہے جسے یورینیم انرچمنٹ یا عمل افزودگی کہتے ہیں۔یورینیم کی انرچمنٹ جاننے سے پہلے ہمیں تھوڑا بہت یورینیم کے آٸسوٹوپس کے بارے میں جاننا ہوگا۔
یوینیم کے قدرتی طور پر تین آٸسوٹوپس پاۓ جاتے ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ یورینیم جو قدرتی طور پر زمین سے نکالا جاتا ہے اس میں یورینیم 238 ننانوے فیصد,یورینیم 235 زیرو اشاریہ سات(0.7) فیصد اور یورینیم 234 زیرو اشایہ زیرو زیرو زیرو پانچ(0.005)فیصد موجود ہوگا۔اسکو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے قدرتی یوینیم اگر سو گرام ہے تو اس میں یوینیم 238 نناوے گرام,یورینیم 235 تو 0.7 گرام اور یورینیم 234, 0.006 گرام موجود ہوگا۔
لیکن یورینیم 235 قدرتی طور پر پایا جانے والا واحد ایسا آٸسوٹوپ ہے جسکو ایٹم بم میں بطور فیول استعمال کیا جاتا ہے۔چونکہ یہ قدرتی یورینیم میں بہت کم مقدار میں پایا جاتا ہے لہذا اسکو ایٹم بم میں استعمال کرنے سے پہلے اسکی مقدار بڑھا جاتی ہے اور اس پراسس کو یورینیم انرچمنٹ کہتے ہیں۔ایٹم بم میں یورینیم کی انرچمنٹ نوے فیصد تک بڑھاٸ جاتی ہے۔
نوے فیصد مقدار بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایٹم بم میں استعمال ہونے والی یورینیم میں نوے فیصد یورینیم 235 ہوتی ہے جبکہ یورینیم 238 کی مقدار دس فیصد ہوتی ہے۔اسی طرح نیو کلیر پاور پلانٹس میں اسکی مقدار دو سے پانچ فیصد تک بڑھاٸ جاتی ہے۔یورینیم انرچمنٹ ایک بہت مشکل,پیچیدہ اور مہنگا پراسس ہوتا ہے۔یورییم انرچمنٹ کے حوالے سے سخت قوانین ہیں۔NPT معاٸدہ کے تحت غیر جوہری ممالک پر یورینیم نارچمنٹ 20 سے زیادہ بڑھانے کی پابندی ہے۔کیونکہ اگر کوٸ ملک ایسا کرے گا تو اسکا مطلب ہوگا کہ وہ اسکو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال کررہا ہے
یورینیم کو 235 کو ایٹم بم اور نیوکلیر پاور پلانٹس میں اسلیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک fissile میٹیرل ہے, جسکا مطلب یہ ہے کہ اسکی ڈاٸریکٹ نیوکلیر فشن کی جاسکتی ہے۔نیوکلیر فشن ایک ایسا پراسس ہوتا ہے جس میں جب ایک بڑے نیوکلیس پر نیوٹرانز پارٹیکل کی بوچھاڑ کی جاتی ہے تو یہ دو چھوٹے نیوکلیاٸ میں ٹوٹ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ مقدار میں انرجی پیدا ہوتی ہے۔اس پراسس کو 1938 میں دو ساٸنسدانوں اوٹانز اور فرٹز نے دریافت کیا تھا۔جب انہوں نے یورینیم کے آٸسوٹوپ 235 پر تھرمل نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی تو یورینیم کا نیوکلیس ٹوٹ گیا جس کے نتیجہ میں دو نٸے ایلیمنٹس وجود میں آۓ اور اسکے ساتھ بہت زیادہ مقدار میں انرجی خارج ہوٸ۔
اس کے برعکس یورینیم 238 ایک fertile میٹیرل ہے جسکا مطلب ہے کہ اسکو ڈاٸریکٹ نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے لیے اسکو ایک اور ایلیمنٹ پلوٹونیم-239 میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اس وقت تین آٸسوٹوپس fissile ہیں جسکا مطلب ہے کہ انکو ایٹم بم اور نیوکلیر ری ایکٹرز میں نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے یعنی انکو as فیول استعمال کیا جاتا ہے جن میں U-233,U-235 اور Pu-239 ہیں۔ یورینیم 235 قدرتی طور پر پایا جانے والا واحد ایسا fisile میٹیرل ہے جسکو نیوکلیر انرجی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جبکہ یورینیم 233 اور پلوٹونیم 239 کو آرٹیفیشکلی طور پر بنایا جاتا ہے۔
یورینیم کی نیوکلیر فشن یعنی جب یورینیم 235 کے نیوکلیس کو سپلٹ کیا جاتا ہے تو کتنی زیادہ انرجی پیدا ہوتی ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ امریکہ نے 6 اگست 1945 کو جو ایٹم بم جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا تھا اس میں 64 کلوگرام یورینیم 235 استعمال کی گٸ تھی جس میں صرف ایک کلوگرام یورینیم 235 کی ہی فشن ہوسکی۔اس ایٹم بم کی تباٸ سے 70 ہزار سے زاٸد لوگ جل کر راکھ ہوگۓ,پچاس ہزار سے زاٸد عمارتیں زمین بوس ہوگٸ اور اسکے اثر سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشنز نے کٸ ہزار لوگوں کو متاثر کیا۔آپ گمان کریں کہ اگر تمام یورینیم 235 کی فشن ہوجاتی تو اسکے نتاٸج کتنے بھیانک ہونگ تھے اور شاید پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آسکتی تھی۔
1896 میں ہنیری بیکرل نے ریڈیو ایکٹویٹی دریافت کی۔یہ ایک ایسا فینامنا ہوتا ہے جس میں کسی ایلیمنٹ کے نیوکلیس میں سے ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہے۔ان ریڈی ایشنز میں الفا,بیٹا اور گیما ریڈی ایشنز شامل ہیں۔۔یہ پراسس جن ایلیمنٹس میں وقوع پذیر ہوتا ہے,ان ایلمنٹس کو ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس کہا جاتا ہے۔یوینیم پہلا ایسا ایلیمنٹ ہے جسکی ریڈیو ایکٹویٹی کے بارے میں ہمیں علم ہوا۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہینری بیکرل اسکی ایک کچھ دھات یعنی پچ پلینڈ کو کاغذ میں لپٹ کر دراز میں رکھ دیتا ہے۔ساتھ ایک فوٹو گرافک پلیٹ بھی پڑی ہوتی ہے۔فوٹو گرافک پلیٹ کی خصوصیات یہ ہے کہ جب اس پر ریڈی ایشنز پڑتیں ہیں تو اس پر دھبے بن جاتے ہیں۔ہینری بیکرل نے فوٹوگرافک پلیٹ پر دھبوں کے نشانات دیکھے۔جب اس پر مزید تحقیق ہوٸ تو معلوم ہوا کہ فوٹوگرافک پر ایکسپوز ہونے والی ریڈی ایشنز پچ پلینڈ میں موجود یورینیم سے نکل رہی ہیں اور یہ پراسس خود بخود ہورہا ہے۔اس پراسس کو میری کیوری نے ریڈیو ایکٹویٹی کا نام دیا۔اس پراسس میں ایک ریڈیو ایکٹویٹو ایلیمنٹ دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اگرچہ ریڈیو ایکٹویٹی کی دریافت سے ہمیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کچھ ایلیمنٹس ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ کے لیے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ان ایلیمنٹس کو ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹس کا نام دیا گیا۔یہ ایسے ایلیمنٹس ہوتے ہیں جن کا نیوکلیس سٹیبل نہیں ہوتا اور ان کے نیوکلیس میں سے خوبخود ریڈی ایشنز یعنی الفا,بیٹا یا گیما ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر یورینیم ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کسی دوسرے ایلیمنٹ میں تبدیل ہوجاۓ گا۔مثال کے طور پر یورینیم(U-238) کی ہاف لاٸف ساڑھے چار ارب ہے(زمین کی عمر بھی تقریباً اتنی ہی ہے)۔اسکا مطب یہ ہے کہ اگر آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے ایک گرام یورینیم موجود تھا تو آج اسکا آدھا رہ جاۓ گا اور اسکا آدھا حصہ کسی دوسرے عنصر یعنی ایلیمنٹ یا آٸسوٹوپ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔
یورینیم کو نہ صرف ایٹم بم بلکہ اسکو نیوکلیر ری ایکٹرز میں استعمال کر کے اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔نیوکلیر ری ایکٹر دراصل ایسا ڈیواٸس ہے جو نیوکلیر پاور پلانٹ کا ہارٹ ہوتا ہے, جس میں یورینیم کی فشن ایٹم بم کے برعکس کنٹرول طریقہ سے کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی حرارت سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے صرف ایک ٹن یورینیئم سے چار کروڑ کلو واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لیے سولہ ہزار ٹن کوئلہ یا 80 ہزار بیرل تیل جلانا پڑتا ہے۔اس وقت پوری دنیا میں 440 نیوکلیر ری ایکٹر اپریٹٹڈ ہیں جو دنیا کی دس فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں۔نیوکلیر ری ایکٹر بجلی پیدا کرنے کا سستا اور اور قابل تجدید ذرٸع ہے۔سطح زمین اور سمندر میں اتنا قدرتی یورینیئم موجود ہے جو دنیا بھر کی بجلی کی ضرورت کو کئی صدیوں تک پورا کر سکتا ہے۔
ورلڈ نیوکلیر ایسوسی ایشن کی 2018 کی رپوٹ کے مطابق کازکستان دنیا کی سب سے زیادہ یورینیم پیدا کرنے والاملک ہے۔اسکے بعد بالترتیب کینیڈا,آسٹریلیا,,نیمیبیا ناٸیجر اور روس شامل ہیں۔پوری دنیا کی 87 فیصد یورنیینم صرف یہ چھ ممالک پیدا کرتے ہیں۔اگرچہ یورنیم کی پیداوار کے لحاظ سے آسٹریلیا تیسرا بڑا ملک ہے جو پوری دنیا کی 12 فیصد یورینیم پیدا کرتا ہے تاہم یوینیم کے سب سے زیادہ ذخاٸر اسٹریلیا میں پاۓ جاتے ہیں۔پوری دنیا میں پاٸ جانے والی یورینیم کے ایک تہاٸ ذخاٸر اسٹریلیا میں پاۓ جاتے ہیں۔اسکے بعد کازکستان,کینیڈا,نیمیبیا اور ناٸجر میں یورینیم کے وسیع ذخاٸر موجود ہیں۔
سطح زمین کی قدرتی چٹانوں میں بہتات کے اعتبار سے یورینیئم قدرتی عناصر میں اڑتالیسویں عدد پر ہے۔ یعنی یہ اتنا بھی نایاب نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بہتات کے اعتبار سے یہ سونے کے مقابلے میں 500 گنا، چاندی سے 40 گنا، پارے سے 25 گنا اور قلع سے دگنا زیادہ ملتا ہے۔
یورینیئم جست (زنک)، بورون، کحل اور کیڈمیم سے زیادہ وافر ہے۔ سمندر کے ایک قلعئ پانی میں تقریباً 3 ملی گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر چٹانوں میں ایک قلع میں دو سے چار گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ یورینیئم دنیا میں اتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ زرنیخ، قلع، ٹنگسٹن اور مولیبڈینیم۔ اگر یورینیئم کی قیمت کچھ زیادہ بڑھ جائے تو سمندر کے پانی سے یورینیئم نکالنا سودمند ہو سکتا ہے۔
یورینیم ایک ہزار سے زاٸد مختلف دھاتوں میں پایا جاتا ہے۔تاہم یوراناٸٹ,کارنوٹاٸٹ,ٹورباناٸٹ اور آٹوناٸٹ میں یہ زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔
یورینیم کی کھدائی اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح لوہے کی ہوتی ہے۔کچ دھات کو زمین سے نکالا جاتا ہے، اسکے بعد نائٹرک ایسڈ(HNO3) سے اسکو ملایا جاتاہے یعنی اسکا کیمیکل ری ایکشن ہوتا ہے۔اسکے نتیجہ میں یورینیل نائٹریٹ (UO2(NO3)2) بنایا جاتا ہے۔اسکے بعد یورنیم کے اس کمپاٶنڈ کو یورینیم ڈائی آکسائیڈ (UO2) میں تبدیل ہوتا ہے۔ آخر میں، یورنیم ڈاٸ آکساٸیڈ کو ہائیڈروجن گیس کے ساتھ کیمیکل ری ایکشن کروا کر خالص یورینیم دھات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔