خون کے ایک قطرے سے پورے جسم میں خون کی مقدار کیسے جانی جاتی ہے ؟
اصل میں ہم پورے جسم میں خون کی مقدار نہیں دیکھتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ خون میں موجود اجزاء/ سیلز کی تعداد کتنی ہے۔ یعنی فرض کریں کہ ایک سیومنگ پول ہے، جس میں پانی بھرا ہوا ہے اور اس پانی میں مختلف چیزیں مکس ہیں، جیسا کہ چینی، نمک وغیرہ۔ ہم اس پانی میں سے کچھ قطرے لیتے ہیں، اور ان کا معائنہ کرکے ratio نکالتے ہیں، یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ اس ایک قطرے میں پانی کتنا ہے، نمک کتنا ہے، چینی کتنی ہے۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ لگ جائے گا کہ اس سوئنگ پول میں پانی کے ساتھ نمک اور چینی کا کیا ratio یعنی تناسب ہے۔
اسی طرح بلڈ ٹیسٹ میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس انسان میں کتنے لیٹر خون ہے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے خون میں سرخ خلیے، سفید خلیے، ہیموگلوبن وغیرہ کا تناسب کیا ہے۔ پھر اس تناسب کا ہم نارمل value سے موازنہ کرکے پتہ لگا سکتے ہیں کہ ان چیزوں کی مقدار اس شخص میں کم ہے یا زیادہ ہے۔ ہم ہیموگلوبن کا ٹیسٹ کریں یا پھر سرخ خلیوں کا، اگر وہ کم ہوں تو عام آدمی کی آسانی کے لیے یہ کہہ لیا جاتا ہے کہ خون کی کمی ہے۔
اگر ہم بات کریں کہ اس ٹیسٹ کا عمل کیا ہے تو خون کے قطرے سے جو ٹیسٹ کیا جاتا ہے اس میں یہ پتہ لگتا ہے کہ خون میں کتنے بلڈ سیلز ہیں، خون میں ریڈ بلڈ سیلز یا وائٹ بلڈ سیلز کی تعداد کا پتہ لگانے کے لیے یہ blood cell count کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں خون کو پہلے کچھ کیمکلز کے ساتھ مکس کر کے dilute کیا جاتا ہے۔ پھر اسے hemocytometer میں رکھ کر microscope کے نیچے رکھا جاتا ہے، پھر دیکھا جاتا ہے کہ hemocytometer کے ایک خاص ایریا میں کتنے بلڈ سیلز ہیں، ان کو گن لیا جاتا ہے، اس تعداد پر ایک فارمولا لگا کر خون میں موجود ریڈ یا وائٹ بلڈ سیلز کی تعداد جان لی جاتی ہے۔
البتہ پروفیشنل لیبارٹریوں میں یہ سارا کام کرنے کے لیے کمپیوٹرائزڈ مشینیں موجود ہیں، جہاں خون کا سیمپل دینے سے آپکو فائنل نتیجے میں بلڈ سیلز کی تعداد معلوم ہوجاتی ہے۔
یہ ایسا ہے جیسے ایک بڑے ایریا میں کسی چیز کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے ہم اس ایریا کے ایک چھوٹے حصے میں اس چیز کی گنتی کرلیں اور پھر ریاضی کی مدد سے پورے ایریا میں چیز کی تعداد کا حساب لگا لیں۔۔۔
پورہ blood volume کیلکولیٹ کرنے کے لیے radioactive tracers استعمال ہوتے ہیں یا پھر آدمی کے وزن سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔۔۔